ہندوستان محبت، تہذیب اور بھائی چارے کی سرزمین رہی ہے، مگر گزشتہ برسوں میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کیا ہے، بلکہ ملک کی روح کو بھی لرزا کر رکھ دیا ہے۔ یہ حالات محض خبروں کے واقعات نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کے احساسات، خوف اور صدمے کی کہانی ہیں۔

دادری لنچنگ — محمد اخلاق کا قتل، جو آج بھی انصاف مانگ رہا ہے
2015 میں اتر پردیش کے دادری گاؤں میں ایک دل دہلا دینے والا سانحہ پیش آیا۔محمد اخلاق، ایک عام مسلمان، اپنے خاندان کے ساتھ پرامن زندگی گزار رہا تھا۔مگر ایک افواہ، ایک جھوٹا شبہ، اور پھر بھیڑ کا جنون…محمد اخلاق کو اس کے اپنے پڑوسیوں نے محض اس شک پر پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا کہ وہ گائے کا گوشت کھا رہا ہے۔یہ واقعہ صرف ایک قتل نہیں تھا—یہ ہندوستان کے سیکولر چہرے پر ایک ایسا زخم تھا جسے دنیا بھر میں محسوس کیا گیا۔آج صورتحال یہ ہے کہ یوپی حکومت اس کیس میں گرفتار تمام 19 ملزمان کے خلاف مقدمات واپس لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ایک بے گناہ انسان کے قاتلوں کو ’’رہائی کے قابل‘‘ سمجھا جانا صرف محمد اخلاق کے خاندان کے ساتھ نہیں، بلکہ پورے ہندوستانی مسلمان کے ساتھ ناانصافی ہے۔
1989 بہار قتلِ عام — اور وزیر اشوک سنگھل کا تکلیف دہ بیان

میں بہار کے علاقے میں ایسا ہولناک قتلِ عام ہوا جس نے ہزاروں گھروں میں ماتم بچھا دیا۔ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کو مارا گیا، ان کی لاشیں گوبھی کے کھیتوں میں چھپائی گئیں، گاؤں کھنڈرات میں بدل گئے—یہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک تاریک ترین باب ہے۔حیران کن مگر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اسام کے وزیر اشوک سنگھل نے یہ بیان اُس وقت دیا جب بہار الیکشن کے رزلٹ این ڈی اے اور بی جے پی کے حق میں آنے لگے تھے۔یہ بیان آج کا نہیں، بلکہ اُس لمحے کا ہے جب سیاسی فائدے کی لہر نے انسانیت کی قدروں کو ڈھانپ لیا۔نہ وزیر نے معافی مانگی۔نہ حکمراں جماعت نے کوئی ایکشن لیا۔نہ اپوزیشن نے اس پر کوئی مضبوط آواز اٹھائی۔گویا ہزاروں مسلمانوں کے قتل پر بےحسی ایک معمول بن چکی ہے۔
آزاد ہندوستان، مگر مسلمانوں کی آزادی کہاں؟
ایک طرف محمد اخلاق کے قاتلوں کی رہائی کی تیاریاں…دوسری طرف ہزاروں مسلمانوں کے قتل پر سیاسی تبصرے…اوپر سے قیادت کی خاموشی…یہ سب ایک سوال بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے:کیا ہندوستانی مسلمان کی جان، اس کے حقوق، اس کی عزت… واقعی اتنی بے قیمت ہو چکے ہیں؟
ہمارے ملی رہنما کیا کر رہے ہیں؟
یہ سوال سب سے اہم ہے۔مسلمانوں کے مسائل پر تقریریں تو ہوتی ہیں، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔نوجوان نسل بے چین ہے، حالات کو دیکھ کر پریشان ہے، اور سوچ رہی ہے:
ہم اپنے مستقبل کو کیسے محفوظ بنائیں؟اپنی شناخت کو کیسے بچائیں؟اور اپنے حق کے لیے کس دروازے پر دستک دیں؟
خاموشی سب سے بڑا جرم ہے
محمد اخلاق کا قتل،بہار قتلِ عام پر بےرحم تبصرے،ملزمان کی ممکنہ رہائی،اور سب کی خاموشی…
یہ سب ایک واضح پیغام دے رہے ہیں:
اگر مسلمان اور انصاف پسند شہری آج بھی خاموش رہے، تو ظلم اور زیادہ مضبوط ہو جائے گا۔
لہٰذا:
قانون کے دائرے میں رہ کر آواز اٹھانا ضروری ہےاپنی نسل کو حقیقت بتانا ضروری ہےاتحاد پیدا کرنا ضروری ہےاور حکمت و بردباری کے ساتھ ظلم کے خلاف ڈٹ جانا ضروری ہے






